Monday 2 July 2012

Let's Have a look at what Americans get.

ماہرین کہتے ہیں کہ خود کشی کا خطرہ اور بڑھ جاتا ہے جب سپاہی عام زندگی میں واپس لوٹتے ہیں اور انہیں جنگ کی ہولناکیوں سے پیدا ہونے والی ذہنی دباؤ، صدمے کےنتیجے میں پیدا ہونے والے دماغی زخموں، منشیا ت کی لت اور مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں یہ سب مسائل، فوجی زندگی کے لگے بندھے نظام کے بغیر اکیلے ہی برداشت کرنے ہوتے ہیں۔ امریکی فوجیوں کے ساتھ بھی یہی مسلئہ ہے۔

------------

بہت سے امریکی فوجیوں کے لیے جو عراق اور افغانستان کی جنگوں میں خدمات انجام دے چکے ہیں، گھروں کو واپسی اس وقت کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکل ہوتی ہے جو انھوں نے جنگ میں صرف کیا ہوتا ہے۔ان سابق فوجیوں میں خود کشی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عام آبادی کے مقابلے میں ان لوگوں میں خود کشی کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ اب جب کہ ہر روز ایک فوجی خود اپنی جان لے رہا ہے فوجی قیادت اور سپاہیوں کے عزیز و اقارب اس مسئلے کو سمجھنے کی
کوشش کر رہے ہیں۔
جوش لیپسٹین کی موت کا سبب عراق کی جنگ اور اس میں استعمال ہونے والے بم نہیں تھے۔ اس کی موت گھر واپسی کی وجہ سے ہوئی، اس 23 سالہ فوجی نے، عراق میں اپنی دوسری تعیناتی سے واپسی پر گذشتہ سال خود کشی کر لی۔اس کے
والد ڈان لیپسٹین نے بتایا کہ ان کے بیٹے کو منشیات کی لت پڑ گئی تھی اور وہ بدنامی کے ڈر سے، فوج کے ڈاکٹروں کے سامنے کُھل کر بات کرنے سے ڈرتا تھا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ خود کشی کا خطرہ اور بڑھ جاتا ہے جب سپاہی عام زندگی میں واپس لوٹتے ہیں اور انہیں جنگ کی ہولناکیوں سے پیدا ہونے والی ذہنی دباؤ، صدمے کےنتیجے میں پیدا ہونے والے دماغی زخموں، منشیا ت کی لت اور مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں یہ سب مسائل، فوجی زندگی کے لگے بندھے نظام کے بغیر اکیلے ہی برداشت کرنے ہوتے ہیں۔
بہت سے فوجی مدد طلب نہیں کرتے کیوں کہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے کہیں ان کا کیریئر خراب نہ ہو جائے۔لیکن میرین لانس کارپورل مائیکل ہیرس جیسے فوجی بھی ہیں جو مدد طلب کرتے ہیں۔ ان کے بھائی بین کہتے ہیں کہ مائیکل نے گذشتہ فروری میں، افغانستان میں اپنی تعیناتی کے بعد خود اپنی جان لے لی۔کم از کم اتنا تو تھا کہ مائیکل مدد کے لیے ہاتھ پیر مار رہا تھا اور کونسلنگ کے ڈپارٹمنٹ سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن جب اس نے انہیں بتا دیا کہ وہ بہت زیادہ شراب پیتا رہا ہے۔۔ اور یہ بات اس نے خود بتائی کیوں کہ وہ مدد حاصل کرنا چاہتا تھا ۔۔ تو اس کے بعد ہی اسے بتا دیا گیا کہ اس کا مسئلہ نشہ آور چیزوں کے غلط استعمال کا ہے، اور وہ اس کی مزید کوئی مدد نہیں کر سکتے۔
ملٹری نے برسوں پہلے خود کشی سے بچاؤ کی تربیت کا پروگرام شروع کیا تھا، لیکن سرگرم کارکن کہتے ہیں کہ مریضوں کو مختلف کیٹیگریوں میں تقسیم کرنے کے نظام میں کوئی لچک نہیں ہے اور مدد کے لیے رابطہ کرنے والوں میں جن لوگوں کے خود کشی کرنے کا خطرہ ہوتا ہے یہ پروگرام ان کی ذمہ داری اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت سے لوگوں کی مدد کے موقعے گنوا دیے جاتے ہیں۔
واشنگٹن میں ایک حالیہ کانفرنس میں امریکی حکومت کے صحت کی ماہرین نے کہا کہ خود کشی کرنے والے 70 فیصد افراد، فوجی ڈاکٹروں سے مل چکے ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ اسی روز خود کشی کرتے ہیں جس روز وہ ڈاکٹر سے ملے ہوتے ہیں۔
امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا کہتے ہیں کہ بحیثیت وزیرِ دفاع انہیں جو مسائل پیش آئے ہیں ان میں شاید سب سے مشکل خود کشی کا مسئلہ ہے۔ڈان لیپسٹن کو اب اپنا بیٹا تو واپس نہیں مل سکتا، لیکن انھوں نے ایک ایسے گروپ میں شمولیت اختیار کر لی ہے جو اس مسئلے کے بارے میں آواز بلند کر رہا ہے اور لوگوں میں واقفیت بڑھا رہا ہے۔یہ محض ابتدا ہے۔ امریکی ، لوگوں کے سامنے بیٹھتے ہیں اور اپنی داستان سناتے ہیں۔ شاید اس طرح ان کی زندگی کوئی بچا سکے۔
بین ہیرس اس امید کا اظہار کرتے ہیں کہ ملٹری، بیوروکریسی کے چکر سے نکل کر زیادہ عملی اور انسان دوستی پر مبنی رویہ اپنائے گی۔ان کا کہنا ہے کہ ہم اپنی فوج کے سب سے نچلی سطح سے اعلیٰ ترین سطح تک کے لوگوں کے علم میں جتنا زیادہ اضافہ کر سکیں، اور انہیں یہ بتا سکیں کہ آنکھ سے نظر نہ آنے والے زخم اور جذباتی امراض سے بھی ہماری فوج کی تیاری اور کام کرنے کی صلاحیت اتنی ہی متاثر ہوتی ہے جتنی عام بیماریوں سے، ہمیں اتنا ہی زیادہ فائدہ ہوگا۔
مائیکل ہیرس کی قبر کے کتبے پر یہ الفاظ لکھے ہیں: یہ دنیا اس شخص کی بے پناہ خوبیوں کے لائق نہیں تھی۔اسے گھر واپس لوٹنے کے بعد بھی زندہ رہنا چاہیئے تھا۔

No comments:

Post a Comment