Monday 22 October 2012

‫ایک لامذہب تبرائی غیرمقلد(جو خود کو اہل حدیث کہتے...‬‎‏

ایک لامذہب تبرائی غیرمقلد(جو خود کو اہل حدیث کہتے ہیں) کے فقہ حنفی پر چند

اعتراضات کی حقیقت

بسم الله الرحمن الرحیم

نمبر [01] خنزیر کی حرمت : ملکہ وکٹوریہ کے زیر سایہ جب یہ فرقہ غیرمقلدین پیدا ہوا اس نے دیکھا کہ انگریز خنزیر خور قوم ہے اور مسلمان خنزیر سے بہت نفرت کرتے ہیں تو مسلمانوں کے خلاف انگریز کو خوش کرنے کے لئے ان کے مسلمہ علماء نے خنزیر کے پاک ہونے کا فتوی دیا

علامہ وحید الزماں غیرمقلد
(جو خود کو اہل حدیث کہتے ہیں) نے "لکھا انسان کے بال ، مردار اور خنزیر پاک ہیں - خنزیر کی ہڈی ، پٹھے ، کھر ، سینگ اور تھوتھنی سب پاک ہیں [کنزالحقائق ص 13] علامہ نورالحسن نے لکھا خنزیر کے نجس العین ہونے کا دعوی ناتمام ہے [عرف الجادی ص 10]

علامہ صدیق الحسن خان نے لکھا ہے کہ خنزیر کے حرام ہونے سے اس کا ناپاک ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ ماں حرام ہے مگر ناپاک نہیں [بدور الاہلہ ص 16]

وحید الزماں نے خنزیر کو اپنے بال جیسا پاک کہا اور دوسرے نے تو یہ عزت دی کہ ماں جیسا پاک کہا

مطالبہ : احناف نے مطالبہ کیا کہ آپکا دعوی ہے کہ ہم اہل حدیث ہیں . . . . . . اور ہمارا ہر ہر مسئلہ حدیث صحیح صریح غیر معارض سے ثابت ہے اس لئے ایک صحیح صریح غیر معارض حدیث ایسی ثابت کریں کہ خنزیر کی ہر چیز غیر مقلد(جو خود کو اہل حدیث کہتے ہیں) کے بال کی طرح پاک ہے یا خنزیر غیر مقلد(جو خود کو اہل حدیث کہتے ہیں) کی ماں کی طرح پاک ہے مگر وہ ایسی کوئی حدیث پیش نہ کرسکے ، ادھر عوام اہل اسلام نے ملامت کی کہ ملکہ وکٹوریہ کی چاپلوسی کی حد کردی کہ اس کی خوشی کے لئے خنزیر تک کو پاک کہہ دیا

اعتراض : اب لامذہب بار بار اپنے ملاؤں سے مطالبہ کرتے کہ خنزیر کے بال اور ماں جیسے پاک ہونے کی حدیث بیان کرو انہوں نے لاجواب ہو کر اپنے جاہلوں کو سکھادیا کہ حنفیوں کی کتاب "منیۃ المصلی" میں لکھا ہے خنزیر کی کھال دباغت سے پاک ہوجاتی ہے اور اس میں نماز بھی جائز ہے

جواب : اصل مسئلہ : مذہب حنفی کی ظاہرالروایت یہی ہے کہ خنزیر اور اس کے تمام اجزاء نجس عین ہیں [منیۃ المصلی ص 66] اصحاب ثلاثہ [امام ابو حنیفہ رحمه الله ، امام ابو یوسف رحمه الله ، امام محمد رحمه الله] سے ظاہرالروایت یہی ہے کہ خنزیر نجس العین ہے اس کی کھال دباغت سے پاک نہیں ہوتی [منیۃ المصلی ص 64] یہی مذہب حنفی ہے اسی پر پوری دنیا میں احناف کا عمل ہے اس اصل مسئلہ کو چھپایا یہ کتمان حق یہود کی عادت تھی پھر روافض کا مذہب بنی ، اور اب لامذہب تبرائی غیرمقلدین کی بسر اوقات بھی اسی پر ہے

اصل عبارت : جس عبارت کا اس تبرائی غیر مقلد نے حوالہ دیا ہے ، پوری عبارت مع شرح منیہ یہ ہے - و ذکر فی نوادر ابی الوفاء قال یعقوب یعنی ابا یوسف لو صلی فی جلد خنزیر مد بوغ جاز و قد اساء بناء علی انه یطهر بالدباغ عندہ فی غیر ظاھر الوایة وقد تقدم و قال ابو حنیفة و محمد لاتجوز الصلاة فیه ولا یطهر بالدباغة و قد مر ان ھذا ھو ظاھر الروایة عن ابی یوسف ایضآ [کبیری ص 195 متن منیة المصلی ص 90] حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی میں بھی اس روایت کو شاذ کہا ہے [برمنیہ ص 64 حاشیہ نمبر 7]

فریب نمبر 01 : مذہب حنفی جو ظاہرالروایت ہے جس پر ہر جگہ عمل ہے اس کے خلاف شاذ روایت بیان کی ، یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ عیسائی ، یہودی ، رافضی متواتر قرآن پاک کے متعلق وسوسے ڈالنے کے لئے شاذ قرأتوں سے تحریف قرآن ثابت کرکے عوام اہل اسلام کے دلوں میں وسوسے ڈالا کرتے ہیں

فریب نمبر 02 : "قد اساء" کا لفظ بیان ہی نہیں کیا

فریب نمبر 03 : یہ نہ بتایا کہ روایت نوادر کی ہے

فریب نمبر 04 : آپ کے مذہب میں تو خنزیر سارا بلادباغت پاک ہے ، مصلی بنایئے مشک بنایئے

نمبر [02] مسئلہ استحاضہ کا : انگریز کے دور میں جب اس نے اسلام کے خلاف یہ پروپیگنڈہ شروع کیا کہ اسلام کے احکام بہت سخت ہیں ، معاذ الله فطرت کے خلاف ہیں تو مسلمانوں کے خلاف انگریزوں کو خوش کرنے کے لئے فقہ کے اس مسئلے کو غیر مقلدین (جو خود کو اہل حدیث کہتے ہیں) نے شہرت دی "غنیة المستملی شرح منیة المصلی" کی مکمل عبارت یہ ہے

وفی الذخیره امرأة رأس ولدھا و خافت فوت الوقت توصأت ان قدرت و الا تیممت و جعلت رأس ولدھا فی قدر او حفیرة و صلت قاعدۃ برکوع و سجود فان لم تستطعهما تؤمی ایماء ای تصلی بحسب طاقتها و لا تفوت الصلوۃ عن وقتها لانها لم تصر نفساء بخروج الولد ما لم تر الدم بعد خروج کله والدم الذی تراہ فی حالة الولادۃ قبل خروج الولد استحاصة لا تمنع الصلوۃ فکانت مکلفة بقدر وسعها فلا یجوز لها تفویت الصلوۃ عن وقتها الا ان عجزت بالکلیة کما فی سائر المرضی [ص 264 ، منیة المصلی ص 115 ، 116 حاشیه نمبر 1]

ناقل نہ نہ تو عبارت مکمل نقل کی اور "توضأت" صیغہ مونث کو "توضأ" صیغہ مذکر بنادیا اور "الا" کو "لا" بنادیا ، اس جہالت پر اتنا تکبر ہے حالانکہ یہ مسئلہ نہ کسی آیت قرآنی کے خلاف ہے اور نہ ہی کسی حدیث صحیح کے خلاف ہے ، خلاصہ یہ کہ

[الف] بچہ کی پیدائش کے بعد جو خون عورت کو آتا ہے وہ نفاس ہے اس میں نماز معاف ہے

[ب] بچے کا تھوڑا حصہ نکلتے وقت جو خون عورت کو آتا ہے وہ استحاضہ ہے اس میں نماز معاف نہیں

[ج] بعض عورتوں کو دو دن ایسے گزر جاتے ہیں کہ نفاس نہیں آیا ، استحاضہ آتا رہا ، بچہ بھی پورا پیدا نہیں ہوا

[د] ان وقتوں کی نمازوں کا کیا حکم ہے ، ظاہر ہے کہ نفاس سے قبل نماز معاف نہیں ہوتی اس لئے جو باقی بیماروں کا حکم ہے وہی اس عورت کا ہے ، اگر وضو کرسکتی ہے تو بہتر ورنہ تیمم کرلے ، اگر بیٹھ کر رکوع سجدہ سے پڑھ سکتی ہے تو بہتر ورنہ اشارہ سے پڑھ لے ، اگر اتنا بھی نہیں کرسکتی تو باقی مریضوں کی طرح وہ معذور ہے

اگر لامذہب اس مسئلہ کے خلاف ایک صریح آیت یا صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کردے تو ہم صراحۃ لکھ دیں گے یہ مسئلہ قرآن یا حدیث کے خلاف ہے اور لامذہب قیامت تک ایسی حدیث پیش نہیں کرسکے گا

ہم تو صاف کہہ دیں گے کہ جب یہ مسئلہ نہ قرآن کے خلاف ہے نہ حدیث صحیح کے لیکن اس کے مقدمات اجماعآ مسلم ہیں تو اس کو ماننا ضروری ہوا

نمبر [03] مسئلہ رطوبت فرج : ملکہ وکٹور

[یہ کے اشارہ ابرو پر جب بعض لوگ مذہب حنفی کو چھوڑ کر لا مذہب بن گئے ، یہاں کے سب حنفی مسلمان منی کو بھی ناپاک کہتے تھے ، لامذہبیوں نے فتوی دیا کہ "منی ہر چند پاک است"عرف الجادی ص 10] منی خواہ گاڑی ہو یا پتلی خشک ہو یا تر ہر حال میں پاک ہے [نزل الابرار ج 1 ص 49] والمنی طاھر [کنزالحقائق ص 16] بلکہ ایک قول میں کھانے کی اجازت دی [فقہ محمدیہ ج 1 ص 46] اور یہ بھی فتوی دیا کہ "رطوبة الفرج طاھرة" [کنزالحقائق ص 16 ، نزل الابرار ج 1 ص 49] عورت کے فرج کی رطوبت بھی پاک ہے [تیسرالباری ج 1 ص 207] اب عوام نے مطالبہ کیا کہ ایک صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کرو کہ منی پاک ہے اور ایک قول میں کھانا بھی جائز ہے اور یہ حدیث بھی پیش کرو کہ عورت کی شرمگاہ کی رطوبت پاک ہے ، اب اس لامذہب کا فرض تھا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لیتا مگر افسوس کہ "منی آلودہ منہ" اور "رطوبت فرج آلودہ جسم" سے احناف کے سامنے اپنی پاکدامنی کے گیت گانے لگا اور یہ بھی نہ بتایا کہ لامذہبوں کے ہاں تو رطوبت فرج بالاتفاق اور بلاتفصیل پاک ہے البتہ احناف کے ہاں اس میں تفصیل ہے

نمبر [01] عورت کو پیشاب کی جگہ آگے کی کھال کے اندر پانی پہنچانا غسل میں فرض ہے اگر پانی نہ پہنچے تو غسل نہ ہوگا [بہشتی زیور ج 1 ص 71] یہ جگہ فرج خارج اور فرج داخل کی درمیانی جگہ ہے جہاں غسل کے وقت پانی پہچانا فرض ہے ، باقی بدن کی طرح اس جگہ بھی پسینہ وغیرہ آتا ہے اس کا حکم بدن کے بیرونی پسینے کا ہی ہے یہ پاک ہے ورنہ عورت کو ہر وضو کے وقت استنجاء کا حکم ہوتا [ردالمختار ج 1 ص 112 ، ج 1 ص 208] اس کے پاک ہونے میں اتفاق ہے

نمبر [02] وہ رطوبت جو ماوراء باطن الفرج سے آئے "فانه نجس قطعا" [ردالمختار ج 2 ص 208] یہ بالاتفاق نجس ہے ، لیکوریا وغیرہ

نمبر [03] فرج داخل باہر سے بند ہے اور اندر سے جوف دار ہے تو حرارت غریزی جو تمام جسم میں دائر سائر ہے رطوبت بدنیہ کو بخارات بناکر مسامات جلدیہ سے باہر نکالتی رہتی ہے ، اس جوف میں وہ پسینہ سا جمع ہو کر مبدل بہ رطوبت ہوجاتا ہے ، اگر اس رطوبت میں خون یا منی یا مذی مرد یا عورت کی شامل ہوجائے بالاتفاق نجس ہے [ردالمختار ج 1 ص 233]

نمبر [04] اگر اس رطوبت میں منی وغیرہ کی ملاوٹ نہ ہو تو اس کے پاک ناپاک ہونے میں اختلاف ہے ، امام صاحب رحمه الله کے نزدیک پاک ہے اور صاحبین کے نجس ہے ، علامہ شامی رحمه الله فرماتے ہیں "وھو الاحتیاط" یعنی احتیاط صاحبین کے قول میں ہے اور تاتارخانیہ میں اس اختلاف کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھا ہے کہ انڈا اگر پانی میں گرجائے تو اس پانی سے وضو کرنا مکروہ ہے کیونکہ اس انڈے پر فرج کی رطوبت لگی ہوتی ہے اور اس کراہت کے قول کو مختار قرار دیا ہے [ردالمختار ج 1 ص 233] اب دیکھئے ان کا اپنا مذہب بالاتفاق پاک ہونے کا ہے مگر ہمارے ہاں احتیاط اس کے نجس کہنے میں ہے اور قول مختار کراہت کا ہے

الحاصل : رطوبت جلد بھی پسینہ کی طرح بالاتفاق پاک ہے ، رطوبت رحم بالاتفاق ناپاک ہے اور رطوبت فرج مختلف فیہ ہے احتیاط قول بالکراہت میں ہے

نمبر [04] کتے کی کھال کا مسئلہ : دور برطانیہ میں انگریز کو خوش کرنے کے لئے جب فرقہ غیر مقلدین کی بنیاد رکھی گئی تو انہوں نے دیکھا کہ ان کہ آقاء نعمت کتے سے بڑا پیار کرتے ہیں تو غیر مقلدین نے بھی کتے کی شان میں قصیدہ خوانی شروع کردی . ابن حزم نے یہ لکھا تھا کہ کتا ہبہ میں دینا جائز ہے بلکہ بیوی کو حق مہر میں کتا دینا جائز قرار دیا [المحلی]

نواب صدیق الحسن خان نے تو پوری تفصیل سے لکھا کہ

کتے کے گوشت ، ہڈی ، خون ، بال ، پسینہ میں سے کسی کی نجاست ثابت نہیں [بدور الاہلہ ص 16]

اور علامہ وحید الزماں نے تو کتے کے پیشاب کو بھی پاک کہہ دیا [ہدیۃ المہدی ج 3 ص 78]

کتے اور خنزیر کے لعاب کو بھی پاک قرار دے دیا گیا [نزل الابرار ج 1 ص 49 ، 50]

کتے کے پاخانے کو بھی راجح قول میں پاک قرار دیا گیا [نزل الابرار ج 1 ص 49]

اس پر لوگوں نے یہ سوال کیا کہ اگر آپ سچے اہل حدیث ہیں تو ایک ایک صریح حدیث لائیں کہ کتے کا گوشت ، ہڈی ، خون ، پسینہ ، پاخانہ ؟ پیشاب سب کچھ پاک ہے ، جواب خود پیش نہ کرسکے تو لاجواب ہو کر وسوسہ اندازی پر اتر آئے کہ حنفی مذہب میں اگر کتے کو ذبح کرلیا جائے تو اس کا گوشت اور کھال پاک ہوجاتے ہیں پہلا سوال تو ہہ ہے کہ آپ کے مذہب میں تو بلا ذبح ہی کھال اور گوشت بلکہ سب کچھ پاک ہے اس کی حدیث پیش کرو ؟ اور دوسری حدیث یہ پیش کرو کہ جب بلا ذبح پاک ہے تو بعد ذبح کیوں ناپاک ہے ؟. ہم کہتے ہیں کہ چیزیں دو قسم کی ہیں ایک نجس العین جیسے پاخانہ ، پیشاب ، خنزیر وغیرہ یہ نہ دھونے سے پاک ہوتے ہیں نہ دباغت سے ، نہ ذبح سے . دوسری وہ جو خود نجس العین نہیں لیکن کسی نجس العین کے لگنے سے ناپاک ہوں جیسے کپڑے پر پاخانہ لگ جائے تو یہ دھونے سے پاک ہوجائے گا اب حرام جانور کے گوشت کی مثال تو پہلے نجاست کی ہے اس لئے اگرچہ اس میں اختلاف ہے

مگر اصح قول ناپاکی کا ہے چناچہ علامہ حلبی رحمه الله فرماتے ہیں "وفی طهارۃ لحمه بها اختلافا و الصحیح النجاسة [غنیة المستملی ص 147] اور کھال کی مثال دوسری قسم کی نجاست کی ہے یہ خود حالت حیات میں پاک تھی ناپاک کپڑے کی طرح اس میں نجس رطوبات سرایت کرگئیں تو جب دباغت سے وہ نجس رطوبات زائل ہوگئیں تو کھال صاف ہوگئی "ایما اھاب دبغ فقد طھر" [الحدیث] اور جو چیز دباغت سے پاک ہوجاتی ہے وہ ذکوۃ سے بھی پاک ہوجاتی ہے "الا ما ذکیتم" اسی لئے شارح منیہ فرماتے ہیں "فالحاصل ان فی طهارۃ جلد ما لا یو کل بالذکوۃ اختلافا و الاصح الطهارۃ [غنیة المستملی ص 147]

اگر ان مسائل کے خلاف کوئی صحیح صریح غیر معارض پیش کریں تو ہم ضد نہیں کریں گے مگر یہ ان کے بس کی بات نہیں

نمبر [05] اجرت دیکر زنا کرنے پر حد نہیں : دور برطانیہ میں جب لامذہب غیر مقلدین کا فرقہ پیدا ہوا تو اس فرقہ نے شہوت پرست امراء کو اپنے فرقہ میں شامل کرنے کے لئے اپنی عورتوں کو متعہ کے نام سے زنا کی کھلی چھٹی دے دی چناچہ ان کے سب سے بڑے مصنف علامہ وحید الزماں جس نے قرآن اور صحاح ستہ کا ترجمہ کیا ہے نے صاف لکھ دیا کہ "متعہ کی اباحت قرآن پاک کی قطعی آیت سے ثابت ہے" [نزل الابرار ج 2 ص 3] جب قرآن پاک سے متعہ کا قطعی لائسنس مل گیا تو اب نہ گناہ رہا نہ کو سزا "حد یا تعزیر کا تو کیا ذکر" ، انہوں نے صاف لکھا کہ "متعہ پر عمل کرکے سو شہید کا ثواب نہ لیتی" اہل مکہ کے متبرک عمل میں شرکت نہ کرتی جب کہ حد یا تعزیر تو کجا کسی کے انکار کا بھی خطرہ نہ تھا اس سے ملک بھر کے شرفاء چیخ اٹھے کہ یہ کونسا فرقہ ہے جس نے گھر گھر یہ کام شروع کرلیا ہے تو اب یہ بہت پریشان ہوئے انہوں نے سوچا کہ اپنا کام جاری رکھو لیکن بدنام حنفیوں کو کرو تاکہ وہ ہمیں روک نہ سکیں چناچہ انہوں نے شور مچادیا کہ تمہارے مذہب میں بھی تو اجرت دے کر زنا کرنے پر حد نہیں اس ایک حوالے میں کئی بے ایمانیاں کیں

نمبر 01 : حد نہ ہونے کا مطلب یہ بتایا کہ جائز ہے کوئی گناہ یا سزا نہیں

نمبر 02 : ہم نے مطالبہ کیا کہ صریح آیت یا صحیح صریح غیر معارض ایک ہی حدیث پیش کرو جس میں یہ ہو کہ اجرت دے کر زنا پر حد ہے مگر وہ بالکل پیش نہ کرسکے

نمبر 03 : قرآن پاک میں الله تعالی فرماتے ہیں "فما استمتعتم به منهن فآتوھن اجورھن" ان عورتوں سے حتنا نفع تم نے اٹھایا ہے ان کی اجرت ان کو دے دو یہاں قرآن میں الله تعالی نے مہر کو اجرت قرار دیا مہر اور اجرت آپس میں ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اس لئے اس آیت سے لفظ اجرت میں مہر کا شبہ ہوگیا اور حدیث کے موافق شبہ سے حد ساقط ہوگئی اس کو قرآن و حدیث پر عمل کہتے ہیں ، تم نے نہ قرآن کو مانا اور نہ حدیث کو ، عالمگیری میں صراحت ہے کہ شبہ کی وجہ سے حد ساقط ہوتی ہے [عالمگیری ج 2 149]

نمبر 04 : لیکن حد ساقط ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کو بدکاری کی چھٹی دی جائے گی اور اس پر کوئی سزا نہ دی جائے گی بلکہ "ویوجعان عقوبة و یحبسان حتی یتوبا" [عالمگیری ج 1 ص 149] ان کو ایسی دکھ کی مار دی جائے گی کہ دوسروں کو عبرت ہو اور اس مار کے بعد ان کو قید کردیا جائے گا جب تک ان کی توبہ کا یقین نہ ہو - "کیا کسی لامذہب میں یہ جرأت ہے کہ وہ اپنی کسی معتبر کتاب میں متعہ کی یہ سزا دکھائے ، آپ کے ہاں تو انکار بھی جائز نہیں بلکہ عمل بالقرآن ہے

اور پھر اس لامذہب نے یہ بھی نہ بتایا کہ یہ مسئلہ فقہ کا متفق علیہ نہیں بلکہ خود امام صاحب رحمه الله سے ایک قول حد کے واجب ہونے کا ہے "و الحق وجوب الحد کاالمستاجرۃ للخدمة فتح درمختار ج 3 ص 172 ای کما ھو قولهما [ردالمختار ج 3 ص 157 ، 172] امام صاحب رحمه الله بھی قول میں صاحبین کی طرح فرماتے ہیں حق یہی ہے کہ حد واجب ہے - الحاصل ہمارے مذہب میں یہ فعل زنا ہی ہے اور گناہ کبیرہ ہے اختلاف صرف اس میں ہے کہ زنا موجب حد ہے یا شبہ کی وجہ سے موجب تعزیر ، امام صاحب رحمه الله سے دونوں اقوال موجود ہیں جب کہ لامذہبوں کے ہاں یہ "زنابالاجرۃ نہ زنا ، نہ گناہ ، نہ حد ، نہ تعزیر ، نہ انکار بلکہ قرآن پر عمل ہے"

نمبر [06] وطی محارم بعد نکاح پر حد نہیں : دور برطانیہ میں جب یہ فرقہ پیدا ہوا تو شہوت پرستی میں انتہا کو پہنچ گیا چناچہ انہوں نے فتوی دیا کہ "بہتر عورت وہ ہے جس کی فرج تنگ ہو اور جو شہوت کے مارے دانت رگڑ رہی ہو اور جو جماع کراتے وقت کروٹ سے لیٹتی ہو [لغات الحدیث وحید الزماں غیر مقلد پ 6 ص 56]

اور اگرچہ قرآن کی نص موجود تھی ایک مرد ایک وقت میں چار سے زائد عورتیں نکاح میں نہیں رکھ سکتا مگر نواب صدیق حسن اور نورالحسن نے فتوی دیا کہ چار کی کوئی حد نہیں جتنی عورتیں چاہے نکاح میں رکھ سکتا ہے [ظفرالامانی ص 141 ، عرف الجادی ص 111]

اور شہوت میں یہاں تک بڑھے کہ اگر کسی عورت سے زید نے زنا کیا اور اسی زنا سے لڑکی پیدا ہوئی تو زید خود اپنی بیٹی سے نکاح کرسکتا ہے [عرف الجادی ص 109]

اور نکاح اور زنا میں یہی فرق تھا کہ زنا کے گواہ نہیں ہوتے نکاح میں گواہ شرط ہیں - میر نورالحسن صاحب نے اس حدیث کو بھی ضعیف کہا اور کہا کہ یہ ناقابل استدلال ہے [عرف الجادی ص 107]

اور شہوت میں ایسے اندھے ہوگئے کہ فطری مقام کے علاوہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا غیر فطری مقام استعمال کرے تو بھی [حد یا تعزیر کجا] اس پر انکار تک جائز نہیں [ہدیۃ المہدی ج 1 ص 118]

بلکہ یہاں تک فتوی دیا کہ دبر آدمی میں صحبت کرنے والے پر غسل بھی واجب نہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں [ہدیۃ المہدی ج 1 ص 28]

بلکہ ایک اور نسخہ بھی بتادیا کہ اگر کوئی شخص اپنا آلہ تناسل اپنی دبر میں داخل کرے تو غسل واجب نہیں [نزل الابرار ج 1 ص 41]

بلکہ نظر بازی سے بچنے کا یہ وہابی نسخہ بھی بتادیا کہ مشت زنی کرلو اور نظر بازی کے اس گناہ سے بچنا ممکن نہ ہو تو مشت زنی واجب ہے اور بتایا کہ [معاذ الله] صحابه کرام رضی الله عنهم بھی مشت زنی کیا کرتے تھے [عرف الجادی ص 207]

اس قسم کے اور بھی کئی فتوے دیئے گئے تو اہل سنت و الجماعت نے مطالبہ کیا کہ اپنے اصول کے مطابق ان میں سے ہر مسئلے کی دلیل میں کوئی صریح آیت یا صحیح صریح غیر معارض حدیث بیان کریں اور لوگوں نے کہا کہ یہ کیسا فرقہ پیدا ہوا ہے جس سے بیٹی تک محفوظ نہیں اور یہ نہ اپنی بیوی کی دبر کو معاف کریں نہ اپنی دبر کو تو یہ فرقہ کبھی اپنے مسائل کو قرآن و حدیث سے ثابت نہیں کرسکتا اس لئے بجائے قرآن و حدیث پیش کرنے کے دوسروں پر کیچڑ اچھالتا ہے چناچہ علماء سے تو یہ منہ چھپانے لگے کہ وہ قرآن و حدیث کا مطالبہ کرتے تھے ، اپنے لونڈوں کے ذریعے عوام میں یہ بات پھیلادی کہ حنفی مذہب میں بھی بیٹی اور دیگر محرمات سے نکاح جائز ہے اس کا جواب میں احناف نے بتایا کہ

نمبر 01 - یہ محض جھوٹ ہے ہماری فقہ کی کتابوں میں صراحت ہے کہ ماں ، بہن ، بیٹی وغیرہ محرمات ابدیہ ہیں ، ان سے ہرگز نکاح جائز نہیں [ہدایہ وغیرہ]

نمبر 02 - ان سے نکاح کرنا تو کجا اگر کوئی شخص صرف یہ کہے کہ ماں بیٹی سے نکاح جائز ہے تو وہ کافر ہے مرتد ہے واجب القتل ہے [فتح القدیر ج 5 ص 42]

نمبر 03 - اور مطالبہ کیا گیا کہ تم بھی بتاؤ کہ جب نورالحسن نے بیٹی سے نکاح جائز لکھا تو کس کتاب میں اس کو کافر مرتد واجب القتل کہا گیا ؟

نمبر 04 –پھر اس مطالبہ میں لاجواب ہوکر کہنے کہ ماں بہن سے نکاح کرنا تو جائز نہیں ہاں فقہ میں لکھا ہے کہ نکاح کرے صحبت کرے تو اس پر کوئی شرعی سزا نہیں ہے اس کے جواب میں احناف نے کہا کہ یہ بھی محض بہتان ہے فقہ میں تو صاف لکھا ہے یوجع عقوبة ۱ [حاشیہ نمبر 01 - ویعاقب عقوبة ھی اشد ما یکون من التعزیر سیاسة لا حد - فتح القدیر ج 5 ص 40] اسے عبرتناک سزا دی جائے [عالمگیری ج 2 ص 148] "یوجب عقوبة فیعزز" [ہدایہ ج 2 ص 516] سزا واجب ہے اور وہ تعزیر ہے اور یہ سزاء تعزیر بھی قتل تک ہے "ویکون التعزیر بالقتل کمن وجد رجلا مع امرأة لا تحل له" [درمختار ج 3 ص 179] یہ تعزیر قتل تک بھی ہوتی ہے جیسے کوئی مرد ایسی عورت کے ساتھ پایا گیا جو اس کے لئے حلال نہیں تھی [تو اس کے لئے قتل ہے] اس لئے یہ جھوٹ ہے کہ فقہ میں اس کی سزا نہیں ہے

نمبر 05 - پھر کہنے لگے ہاں فقہ کے اعتبار سے نکاح تو جائز نہیں سزا بھی ہے مگر فقہ نے ان کو گناہ [حاشیہ۱] [حاشیہ نمبر ۱ بلکہ یہ زنا سے بڑا گناہ ہے - طحاوی ج 2 ص 96] نہیں کہا اب ان عقل کے اندھوں سے کوئی پوچھے کہ اگر یہ گناہ نہیں تو سزاء قتل کس نیکی کی ہے؟ اور فقہ میں صاف صاف تصریح ہے "انه ارتکب جریمة" [ہدایہ ج 1 ص 516] یعنی اس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے - اتنے جھوٹ بولنے کے بعد آخر کہا کہ فقہ میں لکھا ہے کہ "حد نہیں"

نمبر 06 - احناف نے کہا کہ حضور صلی الله علیه وسلم فرماتے ہیں کہ "البینة علی المدعی" دلیل مدعی کے ذمہ ہوتی ہے - آپ حد کے مدعی ہیں ہم حد کا انکار کرتے ہیں - آپ کا فرض ہے کہ ایک ہی حدیث صحیح صریح غیر معارض ایسی پیش فرمائیں جس میں آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے فرمایا ہو کہ جو شخص محرمات ابدیہ سے نکاح کرکے صحبت کرلے اگر وہ کنوارہ ہو تو سو 100 کوڑے مارے جائیں اگر شادی شدہ ہو تو سنگسار کیا جائے ہم بغیر کسی ضد کے مان لیں گے کہ فقہ کا یہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے لیکن وہ کوئی ایسی حدیث پیش نہیں کرسکے نہ کر سکیں گے

نمبر 07 - آنحضرت صلی الله علیه وسلم کے زمانہ میں کسی نے ماں سے نکاح کیا آپ صلی الله علیه وسلم نے اس کو قتل کرکے اس کا مال لوٹ لینے کا حکم دیا [رواہ الخمسه] ہاں ترمذی ابن ماجہ میں اخذ مال کا ذکر نہیں [منتقی الاخبار] ظاہر ہے کہ یہ زنا کی حد نہیں نہ کوڑے نہ سنگسار اس فعل کی تعزیر ہے

نمبر 08 - ابن عباس رضی الله عنه فرماتے ہیں جو محرمات میں سے کسی سے صحبت کرے اس کو قتل کردو [ابن ماجہ] اب یہ بھی پمفلٹ شائع کرو کہ حضور صلی الله علیه وسلم نے حد کیوں نہ بتائی نہ لگائی تعزیر کیوں بتائی اور لگوائی - افسوس عامل بالحدیث ہونے کا دعوی اور احادیث کا انکار

نمبر 09 - لامذہب غیر مقلدین کے پاس سوائے قیاس کے اس مسئلہ میں کچھ نہیں وہ کہتے ہیں کہ جب نکاح باطل ہے تو کالعدم ہے اس پر وہ کوئی حدیث پیش نہیں کرسکتے لیکن امام صاحب رحمه الله فرماتے ہیں کہ نکاح باطل بھی شبہ بن جاتا ہے اگرچہ قیاس تو نہیں مانتا لیکن حدیث میں ہے آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے فرمایا جو عورت بغیر ولی کے نکاح کرے وہ نکاح باطل ہے - ترمذی ج 1 ص 176 اور ابن ماجہ ص 136 پر تو اسے زانیہ فرمایا لیکن پھر بھی حد تو کیا لگتی اس کو مہر دلایا جارہا ہے - اسی طرح حضرت عمر رضی الله عنه کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے ایک عورت سے اس کی عدت میں نکاح کیا تھا حضرت عمر رضی الله عنه نے اس پر حد جاری نہ فرمائی بلکہ تعزیر لگوائی [ابن ابی شیبہ] ظاہر ہے کہ یہ نکاح شرعی نہ تھا اور حضرت عمر رضی الله عنه نے صحابه کرام رضی الله عنهم کی موجودگی میں حد ساقط کردی اور تعزیر لگائی تو نص حدیث اور اجماع صحابه رضی الله عنهم سے ثابت ہوا کہ نکاح حرام بھی شبہ بن جاتا ہے اور نص حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے کہ شبہ سے حد ساقط ہوجاتی ہے

حافظ صاحب !! اس کو حدیث پر عمل کرنا کہتے ہیں اور یہ ہے احادیث کا فہم ، آپ کا عمل بالحدیث کا دعوی ایسا باطل ہے جیسے منکرین حدیث کا عمل بالقرآن کا دعوی باطل ہے

نمبر 10 - حافظ صاحب !! اس اعتراض کے جواب میں مولانا عبدالحئی صاحب لکھنوی رحمه الله نے مستقل رسالہ ہے جسکا نام "القول الجازم فی سقوط الحد من نکاح المحارم" جس کے جواب سے آج تک تمہاری جماعت عاجز ہے اور تمہارے بڑے بڑے علماء نذیر حسین دہلوی ، صدیق حسن بھوپالی ، وحید الزماں ، شمس الحق عظیم آبادی ، عبدالرحمن مبارکپوری ، ثناء الله امرتسری ، عبدالله روپڑی اس قرض کو سر پر لے کر فوت ہوگئے ہیں

نمبر 11 - حافظ صاحب !! آپ کے مذہب کے موافق ایک لامذہب لڑکے نے اپنی بہن سے نکاح کیا اور صحبت کی آپ کوڑے لگاکر چھوڑ دیں گے وہ پھر دوسری بہنوں سے پھر ماں سے پھر پھوپھی سے پھر خالہ سے باری باری نکاح کرتا رہے گا اور کوڑے کھاتا رہے گا اس کے برعکس حنفی قاضی اسے پہلی مرتبہ قتل کروادے گا تعزیرآ تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ، تو بتایئے سزا ہماری سخت ہوئی یا آپ کی ؟ معاشرہ ہماری سزا سے بچے گا یا آپ کی سزا سے ؟ دیکھا فقہ پر اعتراض کرنے کے لئے کتنے جھوٹ بولنے پڑتے ہیں ، کتنی خیانتیں کرنی پڑتی ہیں ، کتنی حدیثوں کا انکار کرنا پڑتا ہے

نمبر [07] نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا

نمبر [08] عورت کی شرمگاہ پر نظر پڑنا : دور برطانیہ میں جب یہ لامذہب فرقہ پیدا ہوا تو شہوت رانی میں اتنا آگے بڑھا کہ نماز میں ستر عورت کی شرط کا انکار کردیا چناچہ فتوی دیا کہ "ہر کہ در نماز عورتش نمایاں شد نمازش صحیح باشد [عرف الجادی ص 22] یعنی پوری نماز میں جس کی شرمگاہ سب کے سامنے نمایاں رہی اس کی نماز صحیح ہوتی ہے - "اما آنکہ نماز زن اگرچہ تنہا باشد یا بازناں یا باشوھر یا بادیگر محارم باشد بے ستر تمام عورت صحیح نیست پس غیر مسلم ست [بدور الاہلہ نواب صدیق الحسن ص 39] یعنی عورت تنہا بالکل ننگی نماز پرسکتی - عورت دوسری عورتوں کے ساتھ سب ننگی نماز پڑھیں تو نماز صحیح ہے ، میاں بیوی دونوں اکٹھے مادر زاد ننگے نماز پڑھیں تو نماز صحیح ہے ، عورت اپنے باپ بیٹے بھائی چچا ماموں سب کے ساتھ مادر زاد ننگی نماز پڑھے تو نماز صحیح ہے

یہ نہ سمجھیں کہ یہ مجبوری کے مسائل ہوں گے علامہ وحید الزماں وضاحت فرماتے ہیں "ولو صلی عریانآ و معہ ثوب صحت صلوتة" [نزل الابرار ج 1 ص 65] یعنی کپڑے پاس ہوتے ہوئے بھی ننگے نماز پڑھیں تو نماز صحیح ہے

آخر ابوجہل اور مشرکین مکہ بھی تو کپڑوں کے باوجود کپڑے اتار کر ننگے طواف کیا کرتے تھے ، نماز میں شرمگاہ کا ڈھانکنا تو امام ابو حنیفہ رحمه الله کے نزدیک شرط ہے جن کی تقلید حرام ہے ، ابوجہل کے نزدیک تو شرط نہیں اس کی تقلید کرلی گئی ، فقہ حنفی میں تو یہاں تک احتیاط تھی کہ نماز باجماعت میں عورت مرد کے ساتھ کھڑی ہوجائے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے - لیکن لامذہب اتنا عرصہ بھی عورت سے دور نہیں رہ سکتے تھے اس کو فقہ کا مسئلہ کہہ کر ماننے سے انکار کردیا ، اور "نزل الابرار" میں صراحۃ لکھ دیا کہ مرد عورت جماعت میں ساتھ ساتھ نماز پڑھ لیں نماز فاسد نہیں ہوتی ، اب ظاہر ہے کہ عورت مرد کے ٹخنے سے ٹخنہ ، کندھے سے کندھا ، اور ٹانگوں کو خوب چوڑا کرکے کھڑی ہوگی ، حنفی مذہب میں عورت کو سمٹ کر سجدہ کرنے کا حکم تھا تاکہ اس کے ستر کا احترام رہے ، لامذہبیوں نے عورتوں کو حکم دیا کہ بالکل مردوں کی طرح خوب اونچی ہوکر سجدہ کریں بازو ، پیٹ اور پسلیوں سے اتنے دور ہوں کہ درمیان سے بکری کا بچہ گزرسکے ، ہندو گنگا کا غسل بھی کرتے تھے ، دیوی کا درشن بھی - لامذہب اس درشن میں کن کن امور پر توجہ دیتے تھے فرماتے ہیں "بہتر عورت وہ ہے جس کی فرج تنگ ہو جو شہوت کے مارے دانت رگڑ رہی ہو اور جو جماع کراتے وقت کروٹ سے لیٹتی ہو [لغات الحدیث وحید الزماں لفظ الحارقہ] عورت کو خوبصورتی قائم رکھنے کا نسخہ بھی بتاگیا کہ "عورت کو زیر ناف بال استرے سے صاف کرنے چاہئیں ، اکھاڑے سے محل ڈھیلا ہوجاتا ہے [فتاوی نذیریہ] اب ایسی حالت کہ مرد عورت ننگے نمازیں پڑھ رہے ہوں عورت سجدہ بھی کھل کر کررہی ہو عورت کی شرمگا پر نظر پرنا لازمی تھا ، ہوسکتا تھا کہ کوئی ذرا جھجک محسوس کرتا اس لئے اسے بتادیا گیا کہ "ہمچنیں دلیلے بر کراہت نظر در باطن فرج نیا مدہ [بدور الاہلہ ص 175] عورت کی شرمگاہ کے اندر جھانکنا بالکل مکروہ بھی نہیں اور چوتڑوں پر نظر ہر وقت رہے گی اس لئے فتوی دیا کہ "در جواز استمتاع وغیرہ از فخذین وظاہر الیتین و نحو آں خود ہیج شک و شبہ نہ باشد و سنت صحیحہ بداں دار دگشتہ" [بدور الاہلہ ص 175] یعنی چوتڑوں اور رانوں سے فائدہ اٹھانا بے شک و شبہ جائز ہے بلکہ سنت صحیحہ سے ثابت ہے اب کون غیر مقلد مرد ہوگا جو اس صحیح سنت پر عمل نہ کرے خاص طور پر جبکہ یہ سنت مردہ بھی ہوچکی ہو اور اس کو زندہ کرنے میں سو شہید کا ثواب بھی ملے تو ہم خرماو ہم ثواب پر عمل کیسے چھوڑا جائے - اب اس ڈرامے میں اگر مرد کو انتشار ہوجائے تو وہ عضو مخصوص کو ہاتھوں سے زور سے دبائے ہوئے نماز پڑھتا رہے [نزل الابرار] ایسے وقت میں تو رفع یدین بھول جائے گا کیونکہ بڑے اہم کام میں مشغول ہیں ، ایسے وقت میں عورت کی شرمگاہ سے رطوبت خارج ہو تو بھی مضائقہ نہیں کیونکہ عورت کی شرمگاہ کی رطوبت پاک ہے [کنزالحقائق ص 16 ، نزل الابرار ج 1 ص 49 ، تیسیر الباری ج 1 ص 207] اور اگر منی بھی بہہ جائے تو کیا خوف وہ بھی تو پاک ہے [عرف الجادی ص 10 ، نزل الابرار ج 1 ص 49 ، کنزالحقائق ص 16 ، بدور الاہلہ ص 15 ، تیسیر الباری ج 1 ص 207]

اور یہ سب کچھ قرآن و حدیث کے نام پر ہورہا تھا اور رات دن تقریر و تحریر کے ذریعے یہی اعلانات کئے جاتے تھے کہ ہمارا ہر ہر مسئلہ قرآن و حدیث کا مسئلہ ہے تو احناف نے پوچھ لیا کہ ذرا ان مسائل پر آیت قرآنیہ اور احادیث صحیحہ پیش فرمائیں تو ان کے عمل بالحدیث کا بھانڈا چور رستے میں پھوٹ گیا ، بجائے احادیث پیش کرنے کے لگے فقہاء احناف کو گالیاں بکنے ، آج بھی آپ اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں ہم ان سے ثبوت مانگتے ہیں کہ اپنی نماز کا ہر ہر جزئی مسئلہ احادیث صحیحہ سے ثابت کرو تھ اس کے بجائے فقہاء کو گالیاں بکنا شروع کردیتے ہیں ، اب جس فرقہ کی شہوت رانی کا یہ عالم ہو وہ قرآن کیا یاد کرسکتے ہیں یا یاد کیا ہوا قرآن انہیں کب یاد رہ سکتا ہے تو انہوں نے نمازوں میں قرآن ہاتھ میں لے کر قرأت پڑھنا شروع کردی اس پر جب حدیث مرفوع کا مطالبہ کیا گیا کیونکہ کسی امتی کا قول و فعل ان کے لئے دلیل نہیں بن سکتا تو جواب میں حدیث پیش کرنے کے بجائے عوام میں یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ حنفیوں کے نزدیک قرآن دیکھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے مگر نماز میں عورت کی شرمگاہ کو دیکھتے رہنا جائز ہے اس سے نماز نہیں ٹوٹتی ساری فقہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے - اب اس [07] اور [08] نمبر کی وضاحت بھی ملاحظہ فرمائیں

وضاحت - نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا : ہمارے ہاں نماز میں قرأت پڑھنا تو فرض ہے اگر مقدار فرض قرأت بھی نہ پڑھی تو نماز باطل ہے ہاں قرآن ہاتھ میں لے پڑھنے میں اس کا اٹھانا ، اس کے اوراق کو الٹ پلٹ کرنا ، مستقل اسی پر نظر جمائے رکھنا ایسے افعال ہیں جو نماز سے تعلق نہیں رکھتے اور نہ ہی آنحضرت صلی الله عليه وسلم سے ثابت ہیں پھر قرآن سے تعلیم حاصل کرنا یہ بھی تعلیم و تعلم ہوا قرأت تو نہ ہوئی ، یہ سب باتیں عمل کثیر ہیں اور ایسا عمل کثیر جو افعال نماز سے تعلق نہ رکھتا ہو اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے [ہدایہ ، عالمگیری] تاہم ہمیں کوئی ضد نہیں اگر آپ کسی صحیح صریح غیر معارض حدیث سے ثابت کردیں کہ قرآن اٹھانے ، ورق الٹنے ، اس سے تعلیم حاصل کرنے سے عمل کثیر نہیں بنتا اور نمار فاسد نہیں ہوتی تو ہم تسلیم کرلیں گے کہ ہمارا یہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے لیکن حدیث کا نام لے کر لوگوں کو گمراہ کرنے والے آج تک ایک حدیث بھی پیش نہ کرسکے اور نہ ہی قیامت تک کرسکیں گے - انشاء الله العزیزامام ترمذی رحمه الله نے حضرت رفاعہ بن رافع رحمه الله اور ابو داؤد و نسائی نے حضرت عبدالله بن ابی اوفی رضی الله عنه سے حدیث روایت کی ہے ایک شخص کو اتنا قرآن بھی یاد نہ تھا جتنا نماز میں فرض ہے تو آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے فرمایا "تم قرآن کے بجائے حمد و ثنا پڑھ لیا کرو" ظاہر ہے کہ قرأت نماز میں فرض ہے اس شخص کو اتنا قرآن زبانی یاد نہ تھا اگر دیکھ کر پڑھنے سے نماز جائز ہوتی تو آپ صلی الله علیه وسلم اس سے پوچھتے کہ دیکھ کر پڑھ سکتے ہو یا نہیں اور دیکھ کر پڑھ لینا حفظ سے آسان ہے ، آپ نے اس کو دیکھ کر پڑھنے کی اجازت نہیں دی جس سے معلوم ہوا کہ دیکھ کر پڑھنا جائز نہیں - حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنه فرماتے ہیں "نهانا امیر المومنین عمر رضی الله عنه ان نؤم الناس فی المصحف راوہ ابن ابی داؤد" [کنز العمال ج 4 ص 246] حضرت عمر رضی الله عنه نے ہمیں منع فرمایا کہ ہم امام بن کر قرآن پاک دیکھ کر نمازیں پڑھائیں تو احناف کا مسئلہ حدیث رسول صلی الله علیه وسلم ، فرمان خلیفہ راشد اور قیاس شرعی سے ثابت ہے کہ عمل کثیر ہے اور عمل کثیر مفسد نماز ہے اور لامذہبوں کا مسئلہ حدیث کے خلاف ہے

وضاحت - نماز میں عورت کو دیکھنا : فقہ حنفی میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ نماز پڑھتے ہوئے عورت کی شرمگاہ کو دیکھنا جائز ہے

نمبر 01 - احادیث میں ایک اختلاف یہ ہے : عورت نمازی کے سامنے آئے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے [مسلم ج 1 ص 197]

نمبر 02 - حائضہ عورت سامنے آئے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے [ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ]

نمبر 03 - عورت آگے لیٹی بھی ہو تو نماز نہیں ٹوٹتی [بخاری ج 1 ص 56 ، مسلم ج 1 ص 197]

نمبر 04 - حائضہ عورت بھی سامنے لیٹی ہو تو نماز نہیں ٹوٹتی [بخاری ج 1 ص 74 ، مسلم ج 1 ص 198]

یہ حدیثیں صحیح ہیں اور آپس میں متعارض ہیں علماء احناف ان میں تطبیف بیان کرتے ہیں کہ نماز تو نہیں ٹوٹتی البتہ نماز کا خشوع باطل ہوجاتا ہے [شروح حدیث]

جب احناف کے نزدیک عورت کپڑے پہن کر بھی سامنے سے گزر جائے تو نماز کا خشوع باطل ہوجاتا ہے تو پھر احناف پر یہ بہتان باندھنا کہ ان کے نزدیک نماز میں عورت کی شرمگاہ کو دیکھنا جائز ہے کب جائز ہوسکتا ہے بلکہ احناف کے نزدیک تو عورت کپڑے پہنے ہوئے بھی مرد کے دائیں بائیں جماعت میں شریک ہوجائے تو مرد کی نماز فاسد ہوجاتی ہے "اخبرنا ابو حنیفة عن حماد عن ابراھیم قال اذا صلت المرأۃ الی جانب الرجل و کانا فی صلوۃ واحدۃ فسدت صلوۃ قال به نأخذ و ھو قول ابی حنیفة" [کتاب الآثار امام محمد ص 27] بلکہ فقہ حنفی میں تو صراحت ہے "ولو صلی الی وجه انسان یکرہ [عالمگیری ج 1 ص 108] یعنی نماز میں کسی انسان مرد یا عورت کے چہرے کی طرف توجہ رکھنا بھی مکروہ ہے تو شرمگاہ کی طرف دیکھنا کیسے جائز ہوگا

ہاں ایک بات ہے اچانک نظر پڑجانا جیسا کہ ابو داؤد کی حدیث میں آتا ہے کہ عمرو بن سلمہ جب نماز پڑھاتے تھے تو ان کے چوتڑ ننگے ہوتے تھے ، عورتوں کی نماز میں نظر امام صاحب کے چوتڑ پر پڑتی تھی ، انہوں نے نماز کے بعد کہا امام صاحب کے چوپڑ تو ہم سے چھپالو - اب یہ حدیث میں کہیں نہیں آتا کہ ان عورتوں کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا - نہ ہی محدثین اور شراح حدیث نے اس حدیث پر یہ باب باندھا ہے کہ نماز میں شرمگاہ پر نظر پڑنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ، اگر حدیث صحیح ہو تو وہ پیش فرمائیں ہم ہرگز ضد نہیں کریں گے ہم تسلیم کریں گے کہ واقعی یہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے لیکن نہ ہی وہ راولپنڈی کے مناظرہ میں ایسی حدیث پیش کرسکے نہ ہی قیامت تک پیش کرسکیں گے - احادیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی الله علیه وسلم کی زوجہ طاہرہ استراحت میں ہوتی تھی آپ صلی الله علیه وسلم جب سجدے میں جاتے تو ان کے پاؤں کو چھودیتے وہ پاؤں سمیٹ لیتیں ظاہر ہے کہ جب ہاتھ لگنے سے نماز نہیں ٹوٹتی تو نظر پڑنا تو اس سے بھی تھوڑا عمل ہے ، یاد رکھیں نماز کا نہ ٹوٹنا اور بات ہے - دیکھئے آنحضرت صلی الله علیه وسلم فرماتے ہیں مسلمان کی نماز کتے ، گدھے ، عورت اور دوسرے جانوروں کی وجہ سے نہیں ٹوٹتی [طحاوی] اب کتے کے سامنے گزرنے سے نماز نہ ٹوٹنا اور بات ہے ، اس سے یہ مسئلہ نکالنا کہ نمازی از خود کتے کو آگے باندھ کر بٹھائے نماز پڑھے تو جائز ہے یہ اور بات ہے - نمازی کے سامنے سے عورت کا گزر جانا اور اس سے نماز نہ ٹوٹنا اور بات ہے اور از خود عورت کو سامنے بٹھانا اور لٹانا اور نماز میں اس کو دیکھتے رہنا یہ اور بات ہے ، بہرحال نماز نہ ٹوٹنے سے اس فعل کا اختیار و ارادہ سے جائز سمجھنا بالکل غلط ہے ، اب دیکھئے قرآن پاک دیکھ کر پڑھنے کی حضور صلی الله علیه وسلم نے اجازت نہیں دی مگر نماز پڑھتے ہوئے بیوی کے پاؤں کو چھودینے میں کوئی حرج نہیں سمجھا

نمبر [09] نجاست سے قرآن پاک لکھنا [معاذ الله] :

دور برطانیہ سے پہلے اس ملک کے سب اہل سنت و الجماعت حنفی تھے ، دور برطانیہ میں ملکہ وکٹوریہ نے مذہبی آزادی کا اہک اشتہار دیا ، کچھ لوگ تقلید شخصی کو چھوڑ کر لامذہب بن گئے ، اب انہوں نے اپنے امتیاز اور اہل اسلام میں انتشار پیدا کرنے کے لئے نئے نئے مسائل پھیلانے شروع کئے مثلآ بارہ [1200] سو سال سے یہاں کے مسلمان قرآن کا اتنا احترام کرتے تھے کہ بے وضو قرآن پاک کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے [کتب فقہ] اس فرقہ نے اعلان کیا کہ بے وضو بھی قرآن پاک کو ہاتھ لگانا جائز ہے [فتاوی ثنائیہ] یہاں کے لوگ بارہ [1200]
سو سال سے اس پر اتفاق رکھتے تھے کہ ناپاک مرد عورت کو اس ناپاک حالت میں تلاوت قرآن کی اجازت نہیں ہے - لیکن اس فرقہ نے اجازت دے دی [فتاوی ثنائیہ ج 1 ص 519]

بارہ [1200] سو سال تک اس ملک میں اس مسئلہ پر اتفاق تھا کہ حائضہ عورت ان ناپاکی کے دنوں میں قرآن پاک کی تلاوت نہیں کرسکتی - مگر لامذہبوں نے فتوی دے دیا کہ حیض والی عورت بھی قرآن پاک کی تلاوت کرسکتی ہے [فتاوی ثنائیہ ج 1 ص 535]
بارہ [1200] سو سال تک اس ملک میں اتفاق تھا کہ قرآن پاک کی طرف پاؤں پھیلانا بھی درست نہیں - لیکن لامذہبوں نے یہ فتوی دے دیا کہ اگر کھانے کی چیز بلندی پر ہو تو قرآن پاک کو پاؤں تلے رکھ کے چیز اتار کر کھالینا جائز ہے [تحریق اوراق] "العیاذ بالله" بارہ [1200] سو سال سے اس ملک میں اتفاق تھا کہ خون ناپاک ہے - لیکن لامذہبوں نے فتوی دے دیا کہ "حیض کے خون کے سوا سب خون پاک ہیں" [کنزالحقائق ص 16 ، نزل الابرار ج 1 ص 49 ، عرف الجادی ص 10 ، بدور الاہلہ ص 18 ، تیسیر الباری ج 1 ص 206] بارہ [1200] سو سال تک یہاں اس ملک میں فتوی اسی پ

ر تھا کہ حلال جانوروں کا پیشاب نجس ہے اس کا پینا ہرگز جائز نہیں [درمختار ج 1 ص 140]

لیکن دور برطانیہ میں لامذہبوں نے فتوی دے دیا کہ "حلال جانوروں کا پیشاب پاخانہ پاک ہے جس کپڑے میں لگا ہو اس میں نماز پڑھنی درست ہے . . . . نیز بطور ادویات استعمال کرنا درست ہے [فتاوی ستاریہ ج 1 ص 56 ، ج 1 ص 89]
بارہ [1200] سو سال تک اس ملک میں یہی فتوی تھا کہ منی ناپاک ہے مگر لامذہب فرقہ نے فتوی دے دیا کہ منی پاک ہے [عرف الجادی ص 10 ، نزل الابرار ج 1 ص 49 ، کنزالحقائق ص 16 ، بدور الاہلہ ص 15 ، تیسیر الباری ج 1 ص 207] جب اس قسم کے فتوے ملک میں شائع ہوئے اور دعوی عمل بالحدیث سے شائع ہوئے تو علماء احناف نے ان سے ان مسائل کی احادیث صحیحہ صریحہ غیر متعارضہ کا سوال کیا تو ان کی ساری شیخی کرکری ہوگئی ، انہوں نے کہا اہل حدیث کہلانے کے لئے علم حدیث کی ضرورت نہیں [فتاوی ثنائیہ ج 10ص 144]
جب ہم اہل حدیث علم حدیث سے کورے ہیں تو ہم سے بار بار حدیث کا مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے ہم تو صرف فقہاء کو گالیاں دے کر اہل حدیث بنتے ہیں جیسے مرزا قادیانی انبیاء علیہم السلام کو گالیاں دینے کے لئے نبی بنا بیٹھا تھا ، اب لاجواب ہو کر مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کے لئے یہ شوشہ چھوڑا کہ ہم فقہ کو کیوں مانیں اس میں لکھا ہے کہ خون اور پیشاب سے قرآن لکھنا جائز ہے [معاذ الله] گویا سب مسائل کی یہی دلیل تھی کہ ہم بے وضو قرآن کو ہاتھ لگاتے ہیں دلیل یہ کہ فقہ میں لکھا ہے پیشاب سے قرآن لکھنا جائز ہے ، آخر علماء نے پوچھا کہ آپ کے مذہب میں تو خون پاک ہے منی پاک ہے تو کیا ان سے قرآن لکھنا جائز ہے یا نہیں ؟ کیا کسی حدیث میں آتا ہے کہ پاک چیز سے قرآن لکھنا حرام ہے ، آپ کے مذہب میں حلال جانوروں کا پیشاب اور دودھ پیتے بچے کا پیشاب پاک ہے اور پاک چیز سے قرآن لکھنا نہ قرآن سے منع ہے نہ حدیث سے

نمبر [10] کیا نجاست چاٹنا جائز ہے ؟

نمبر 01 - دور برطانیہ سے پہلے بھی یہاں مسلمان آباد تھے مگر کافر غیر کتابی [ہندو ، سکھ ، مجوسی ، چمار ، چوڑا وغیرہ] کے ذبیحہ کو نجس اور مردار قرار دیتے تھے دور برطانیہ میں جب یہ لامذہب فرقہ پیدا ہوا تو انہوں نے اس نجاست اور مردار کو کھانا شروع کردیا اور فتوی دے دیا کھ یہ حلال ہے [عرف الجادی ص 10 و ص 239 و دلیل الطالب ص 413]

نمبر 02 - اسی طرح بارہ [1200] سو سال تک اس ملک میں اتفاق رہا کہ اگر ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر بسم الله نہ پڑھی جائے تو وہ جانور مردار اور نجس ہے - مگر اس نجاست خور فرقہ نے اس کے بھی جواز کا فتوی دے دیا [عرف الجادی]

نمبر 03 - بندوق سے جو جانور مرجائے وہ مردار اور نجس ہے مگر اس لامذہب فرقہ نے یہ نجاست بھی کھانا شروع کردی اور اس کو حلال کہہ دیا [بدور الاہلہ ص 335 ، فتاوی ثنائیہ ج 1 ص 150 و ج 2 ص 132]

نمبر 04 - بجو کو اس ملک کے مسلمان حرام اور نجس سمجھتے تھے مگر اس لامذہب فرقہ نے فتوی دیا "بجو حلال ہے ، جو شخص بجو کا کھانا حلال نہ جانے وہ منافق دے دین ہے ، اس کی امامپ ہرگز جائز نہیں ، یہ قول صحیح اور موافق حدیث رسول الله صلی الله علیه وسلم ہے" [فتاوی ستاریہ ج 2 ص 21 ص 277]

نمبر 05 - بارہ [1200] سو سال سے اس ملک کے مسلمان منی کو ناپاک اور نجس قرار دیتے تھے اس فرقہ نے اس کو پاک قرار دیا اور ایک قول میں اس کا کھانا بھی جائز قرار دیا [فقہ محمدیہ ج 1 ص 46] البتہ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ منی کا کسٹرڈ بناتے ہیں یا قلفیاں جماتے ہیں

نمبر 06 - بارہ [1200] سو سال تک یہاں کے مسلمان حلال جانوروں کے پیشاب کو پینا جائز نہیں سمجھتے تھے اور اس کو نجس قرار دیتے تھے لیکن لامذہبوں نے اس نجاست کے پینے کو جائز قرار دیا ، لکھا کہ "لکھا کہ حلال جانوروں کا پیشاب و پاخانہ پاک ہے جس کپڑے پر لگا ہو اس میں نماز پڑھنی درست ہے ، نیز بطور ادویات استعمال کرنا درست ہے" [فتاوی ستاریہ ج 1 ص 56 ، ج 1 ص 89]

نمبر 07 - بارہ [1200] سو سال سے اس ملک میں یہ مسئلہ تھا کہ تھوڑے پانی ، دودھ وغیرہ میں تھوڑی سی نجاست پڑجائے تو وہ نجس ہوجاتا ہے "پاک پانی میں نجاست پڑجاوے تو اس سے وضو ، غسل وغیرہ کچھ درست نہیں چاہے وہ نجاست تھوڑی ہو یا بہت" [بہشتی زیور ج 1 ص 57 ، ہدایہ ج 1 ص 18] لیکن دور برطانیہ میں اس فرقہ نے فتوی دیا کہ اگر پانی وغیرہ میں نجاست پڑجائے تو جب تک نجاست سے اس کا رنگ ، بو ، مزہ نہ بدلے وہ پاک ہے [عرف الجادی ، بدور الاہلہ]

مثلا ایک بالٹی دودھ میں ایک چمچہ پیشاب ڈال دیا جائے تو نہ اس کا رنگ پیشاب جیسا ہوتا ہے نہ بو نہ مزہ ہمارے مذہب میں وہ پھر بھی ناپاک ہے اس کا پینا حرام بلکہ کپڑے یا بدن پر لگ جائے تو نماز ناجائز ، اس فرقہ کے نزدیک وہ دودھ پاک ، حلال طیب ہے ، یہ اس نجس کو پینا جائز سمجھتے ہیں

نمبر 08 - بارہ [1200] سو سال تک اس ملک کے مسلمان الخمر [شراب] کو پیشاب کی طرح سمجھتے تھے لیکن اس فرقہ غیر مقلدین نے فتوی دیا کہ "الخمر طاھر" [کنز الحقائق] شراب پاک ہے بلکہ بتایا کہ اگر شراب میں آٹا گوند کر روٹی پکالی جائے تو کھانا جائز ہے [نزل الابرار ج 1 ص 50] اور وجہ یہ بتائی کہ اگر پیشاب میں آٹا گوند کر روٹی پکالی جائے تو پیشاب بھی تو جل جائے گا

الغرض اس قسم کے اور کئی مسائل بھی تھے جن سے ملک میں نجاست خوری کی بنیاد ڈال دی ، جب احناف نے ثبوت مانگا کے اپنے اصول پر قرآن پاک کی صریح آیات یا احادیث صحیحہ صریحہ غیر معارضہ سے ان مسائل کا ثبوت پیش کرو تو بجائے احادیث پیش کرنے کے لگے فقہاء کو گالیاں دینے اور فقہ کے خلاف شور مچانا شروع کردیا کہ ان کے ہاں نجاست چاٹنا جائز ہے حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے - نجاست عین کا چاٹنا تو کجا ، جس پانی وغیرہ میں نجاست تھوڑی سی پڑجائے کہ نجاست کا رنگ نہ بو نہ مزہ کچھ بھی ظاہر نہ ہو پھر بھی اس پانی کا پینا حرام ہے ، اس میں احناف کا کوئی اختلاف نہیں بلکہ بہشتی گوہر میں لکھا ہے کہ ایسے ناپاک پانی کا استعمال جس کے تینوں وصف یعنی مزہ اور بو اور رنگ نجاست کی وجہ سے بدل گئے ہوں کسی طرح درست نہیں نہ جانوروں کو پلانا درست ہے نہ مٹی وغیرہ میں ڈال کر گارا بنانا جائز ہے [بہشتی گوہر ج 1 ص 5 بحوالہ درمختار ج 1 ص 207] تو جب نجس پانی جانور کو پلانا ہمارے مذہب میں جائز نہیں تو انسان کو چاٹنے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے

چناچہ بہشتی زیور میں صاف لکھا ہے کہ نجاست چاٹنا منع ہے [بہشتی زیور ج 2 ص 5] دراصل اختلاف بعض چیزوں کے پاک ناپاک ہونے میں ہے ، ان مسائل کی تفصیل یہ لوگ بیان نہیں کرتے اور غلط نتائج نکالتے ہیں

نمبر 01 - مثلآ بعض جاہل عورتوں کی عادت ہوتی ہے کپڑا سی رہی تھی انگلی میں سوئی لگ گئی اور تھوڑا سے خون نکل آیا وہ بجائے اس پر پانی ڈالنے کے اس کو دو تین مرتبہ چاٹ کر تھوک دیتی ہیں اب اس کا مسئلہ بتانا ہے تو فقہ یہ کہتی ہے کہ اس نے جو چاٹا یہ گناہ ہے اور پہلی دفعہ چاٹنے سے منہ بھی ناپاک ہوگیا مگر بار بار تھوکنے سے جب خون کا کوئی نشان باقی نہ رہا تو انگلی اور منہ پاک سمجھے جائیں گے ، اس مسئلے کے خلاف اگر وہ صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کردیں تو البتہ ہم ان کی علمی قابلیت مان لیں گے یعنی فقہ کہتی ہے کہ چاٹنا منع ہے وہ حدیث سنائیں کہ چاٹنا جائز ہے؟ ، فقہ کہتی ہے کہ خون کا نشان نہ رہے تو جگہ پاک ہے وہ حدیث دکھائیں کہ خون کا نشان مٹ جانے کے بعد بھی جگہ ناپاک ہے؟ لیکن ان کا اپنا مسئلہ تو یہ ہے کہ خون پاک ہے ، انگلی کو لگا انگلی بھی پاک رہی ، منہ کو لگا منہ بھی پاک رہا یعنی غیر مقلد عورت اس خون کو پاک سمجھ کر چاٹے گی حنفی ناپاک سمجھ کر

No comments:

Post a Comment