Media and NGO's
مجھے بہت دُکھ ہوتا ہے جب میں نوجوانوں کو یہ کہتے ہوئے سنتا ہوں کہ یہ ہماری ثقافت۔۔۔۔۔۔۔بھئی کیسی ثقافت؟ کہاں کی ثقافت؟ کیا ہمارے اباواجداد اور اسلاف یہیں چھوڑ کر گئے ہیں؟؟ ہرگز نہیں، وہ تو ہمارے پاس دین کامل کے زریں اُصول چھوڑ کر گئے ہیں اور ہم ہیں کہ مغربی ثقافت اور تہذیب کے سائے کے پیچھے بھاگتے ہوئے اپنے پیارے دین کو بھلا بھیٹے۔
وہ مدارس جن کے طالبعلموں نے پاکستان کے نام پر ہر تحریک میں جان ڈالی، یہاں آج ہمارے سامنے اُن ہی مدارس کو ملک کی تباہی کے طعنے اُس لبرل طبقے سے مل رہے ہیں جنہوں نے پاکستان کو اس حالت پر لا کھڑا کیا، میڈیا میں صیہونی اور نصرانی استعماری قوتوں کی جانب سے پیسہ لگانے سے اس ملک کا میڈیا دن رات عوام کو ثقافت کے نام پر وہ غیر مہذب پروگرام نشر کرکے دکھاتے ہیں کہ ایک گھرانے والے ساتھ بیٹھ کر ٹیلوژن نہیں دیکھ سکتے۔ یا تو دیکھتے دیکھتے اتنے بے حس ہوگئے کہ آج خوا کتنا بھی فحش پروگرام کیوں نہ چل رہا ہوں والد بیٹیوں سمیت بیٹھے رہتے ہیں اور نئی نسل ان سب پر اپنی ثقافت کا لیبل لگا کر فخر سے اپناتے ہیں۔
غیرملکی امدادی تنظیمیں 'یو ایس ایڈ وغیرہ' ملک میں امدادی کاموں میں کم جبکہ کراچی میں فحش فیشن شوز منعقد کرانے اور اسلام آباد میں ہم جنس پرستوں کی پارٹیاں منعقد کرنے میں صف اول کا کردار ادا کر رہے ہیں اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے ہی لوگ ان کے تنخواہ پہ یہ سب کچھ کرتے ہیں اور انکے ہمارے نظریاتی تشخص کو آگ لگانے مین ایندھن بنتے ہیں۔
ایک جگہ آیا ہے کہ آخرت میں حق کو پہچاننے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے کہ دیکھا جائے کہ باطل کی تلوارں کا رُخ کس جانب ہے، حق وہی ملے گا، اور آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ باطل نے ہمارے اسلامی نظرئیے، ہماری دینی تعلیم، ہمارے مدرسوں، اور اس پورے معاشرے کے خلاف ہر طرح سے برسرپیکار ہے اور اس میں ان کو کئی محاذوں پر کامیابی ملی ہے اور جہاں جہاں یہ ناکام ہیں وہاں انکے سامنے نہ میں ہوں اور نہ آپ، وہاں ان کے سامنے علماء ہیں، مدرسے کے طالبعلم ہیں،اور اسلاف کی دُعائیں ہیں ۔۔۔۔ میں اور آپ تو ناکامی کی وجہ بن رہے ہیں، ہماری نسل نے فحاشی اور عریانی کو ثقافت تو بنادیا پر خدا گواہ ہے کہ ڈھول کی تھاپ پر ناچنے والی ماؤں کے بطن سے صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم پیدا نہیں ہوتے، پیدا ہونگے تو میر جعفر، میر صادق اورمنافق عبداللہ ابن سباء پیدا ہونگے جو اسلام کے خلام دُشمن کے ہاتھ مظبوط کریں گیں۔
No comments:
Post a Comment