ممبئی حملے: سعودی عرب نے پاکستانی نوجوان جہادی قرار دے کر بھارت کے حوالے کردیا
سعودی عرب میں قید ممبئی حملوں میں مطلوب مبینہ پاکستانی جہادی ابو جندل کو بھارت کے حوالے کرنے سے جہاں دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کا اندازہ ہوتا ہے وہیں پاکستان جہاں سعودی حکمران خاصا اثرو رسوخ رکھتے ہیں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کہیں اپنی بھارت مخالف مہم جوئی میں وہ اکیلا تو نہیں ہوتا جا رہا۔ذبیح الدین انصاری عرف ابو جندل عرف ابو حمزہ کو گزشتہ برس سعودی حکام نے مشکوک سفری دستایزات رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
گرفتاری کے وقت ابو جندل کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا جس پر اس کا نام ریاست علی لکھا ہوا تھا۔ریاست علی کی گرفتاری پر پاکستان اور بھارت دونوں نے سعودی حکام سے اس کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا، پاکستان کا دعویٰ تھا کہ وہ اس کا شہری ہے اس لیے اسے اس کے حوالے کیا جائے جبکہ بھارت کا کہنا تھا کہ ریاست علی دراصل ذبیح الدین انصاری عرف ابو جندل ہے جو اس کا شہری اور دوہزار آٹھ نومبر میں ممبئی میں ہونے والے دہشتگردانہ حملوں میں ملوث ہے۔
بھارتی حکام کے مطابق ابو جندل کا تعلق کالعدم لشکر طیبہ سے ہے۔سعودی حکام نے پاکستان اور بھارت دونوں کا کہا کہ وہ اپنے اپنے دعوے کے حق میں ثبوت لائیں۔جس پر بھارت نے ممبئی حملوں کے دوران دہشتگردوں اور ان کو ہدایات دینے ولوں کے درمیان پکڑی گئی گفتگو کے کچھ نمونے سعودی حکام کے حوالے کیے جو ان کے بقول ابو جندل کی آواز تھی پھر انہوں نے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے اس کے والد ذکی الدین کے خون کے نمونے بھی مہیا کیے اور دعوی کیا کہ یہ اس کے والدین ہیں، جن کی جانچ کے بعد سعودی عرب نے ابو جندل پر بھارتی دعویٰ تسلیم کرتے ہوئے اسے بھارت کے حوالے کردیا حالانکہ پاکستان نے بار بار کہا کہ وہ اس کا شہری ہے اور اسے بھارت کے حوالے نہ کیا جائے۔
بھارت اور سعودی عرب میں ملزموں کے تبادلے کے کسی معاہدے کی عدم موجودگی میں ا یک پاکستانی ابوجندل کو بھارت کے حوالے کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے اور اکیس جون کو اسے دلی ائرپورٹ پر گرفتار کیا گیا، لیکن اس کا اعلان پچیس جون کو کیا گیا۔ بھارتی اخبارات کے مطابق ابوجندل کی گرفتاری کے اعلان سے پہلے حکام نے پانچ روز تک اسے زیرتفتیش رکھا۔
ابو جندل سے ہونے والی تفتیش سے ملنے والی معلومات پر مبنی ایک رپورٹ عنقریب پاکستانی حکام کے حوالے کیے جانے کا امکان ہےبھارتی حکام کے مطابق ممبئی حملوں کے وقت ابوجندل کراچی میں قائم ’کنٹرول روم‘ کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھا اور وہاں سے ملنی والے احکامات کی روشنی میں تاج ہوٹل سمیت مختلف مقامات پر حملہ آور دہشتگردوں کو ہدایات جاری کرتا رہا۔کہا جا رہا ہے کہ وہ سعودی عرب میں قیام کے دوران ممبئی حملوں کے طرز پر دہشتگردی کے ایک اور منصوبے پر کام کر رہا تھا ، جس میں اسے لشکر طیبہ کی مدد حاصل تھی۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ابوجندل پاکستان بھی آتا جاتا رہا ہے جہاں اس کی لشکر طیبہ کی قیادت سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ ممبئی حملوں کے حوالے سے بھارت کی مطلوب افراد کی فہرست میں جماعت الدعوۃٰ کے حافظ سعید، ذکی الرحمن لکھوی، پاکستان آرمی کے دو میجر اور انڈر ورلڈ ڈان داؤد ابراہیم سمیت پچاس افراد شامل ہیں۔ تاہم پاکستان ان حملوں میں ملوث ہونے سے ہمیشہ انکار کرتا رہا ہے۔
بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ابو جندل سے ہونے والی تفتیش سے ملنے والی معلومات پر مبنی ایک رپورٹ عنقریب پاکستانی حکام کے حوالے کیے جانے کا امکان ہے ، جس کے بعد پاکستان پر ممبئی حملوں کی تحقیقات میں ’بامعنی‘ تعاون کرنے کے لیے بین الاقوامی دباؤمزید بڑھ جائے گا۔لیکن ابوجندل کی سعودی عرب میں گرفتاری اور پھر باالاخر بھارت کے حوالے ہونا پاکستان کے لیے خاصا تشویشناک ہے کیونکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور عوام کی اکثریت سعودی عرب کو اپنا سب سے بڑا دوست مانتے ہیں، لیکن ایران کے ساتھ تیل و گیس کی تجارت سے بعض رکھنے اور اپنا تیل بیچنے کے چکر میں سعودی عرب کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہوتا جا رہا ہے۔
ممبئی حملوں میں مطلوب ایک اہم پاکستانی ملزم کی سعودی عرب کی مدد سے گرفتاری کے بعد دہشت گردی کے ان واقعات اور اس میں پاکستان ریاست کے کچھ عناصر کے ملوث ہونے کے بھارتی مؤقف کو بین الاقوامی برادری میں تقویت ملے گی۔ مگر اس سے بھی بٖڑا سوال یہ ہے کہ کیا سعودی عرب پاکستان کا دوست ہے یا بھارت کا —
www.facebook.com/AwazToday
No comments:
Post a Comment