Saturday, 23 June 2012

What Jews of Israel think about Pakistan (Urdu)





پاکستان کے بارے میں قائدِاعظم محمد علی جناح کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلمانانِ ہند کیلئے ایک ایسی تجربہ گاہ ہوگا جہاں اسلام کے بتائے ہوئے زریں اصولوں عملی طور پر نافذ کیے جا سکیں۔ مسلمانانِ ہند کی لازوال جدوجہد بالآخر رنگ لے آئی اور مسلمانوں کی ایک نظریاتی آزاد ریاست پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر 14 اگست 1947 پر ابھر آئی۔
ایسی ہی ایک آزاد ریاست کا خواب بنی اسرائیل کے راہنماؤں نے بھی دیکھا۔ ایک ایسی امن پسند ریاست جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے دربدر ظلم و ستم کا شکار یہودیوں کا اپنا گھر کہلا سکے، جہاں دنیا کے ذہین ترین لوگ بلا خوف و خطر اپنی صلاحتیں بنی نوح انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے وقف کر سکیں، نئی نئی ایجادات کی جاسکیں، فلاحی ریاست کے شہری بلا تعصب میڈیسن، ٹیکنالوجی سمیت ہر شعبہ زندگی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں، جو دنیا بھر میں قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے متاثرہ اقوام کیلئے مسیحا بھی ثابت ہو سکے۔ تحریکِ پاکستان کی طرز پر یہودی قوم کی انتھک جدوجہد کی بدولت 1948 میں وہی تاجِ برطانیہ جس کے ذریعے پاکستان کا قیام عمل میں آیا، نے ایک اور نظریاتی مملکت اسرائیل کو جنم دیا لیکن اعلانِ آزادی کے چند ہی گھنٹوں میں پڑوس کی ہمسایہ عرب ریاستوں نے صرف اور صرف مذہبی تعصب اور انا کا مسئلہ بنا کر نوزائیدہ مملکت جو کہ پورے مڈل ایسٹ کے 1 فیصد کے 1/8 ویں حصے پر مشتمل ہے، پر دھاوا بول دیا۔ بقا کی اس جنگ میں قدرت نے اسرائیل کا ساتھ دیا اور حملہ آور عربوں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
نظریاتی مملکت اسرائیل کے وزیرِ اعظم ڈیوڈ بن گورین نے دنیا کی دوسری نظریاتی مملکت پاکستان سے خیرسگالی اور تعلقات استوار کرنے کیلئے بانی پاکستان قائداعظم سے ٹیلی فونک رابطہ بھی قائم کیا جسے بدقسمتی سے کوئی اہمیت نہ دی گئی بلکہ عربوں سے اپنا تعلق جوڑنے کیلئے اسرائیل کو برطانیہ کا ناجائز بچہ تک کہہ ڈالا گیا۔ تحریکِ خلافت کے موقع پر جب مسلمانانِ ہند جذباتی ہوئے جارہے تھے، اس وقت بانیِ پاکستان نے اپنے آپ کو اس سے الگ تھلگ رکھا لیکن اسرائیل کے حوالے سے یہ جذباتی فیصلہ ایک ایسی ہی غلطی کہی جاسکتی ہے جو پاکستان کی ناتجربہ کار قیادت نے سویت یونین کا دعوت نامہ ٹھکرا کر کی جسکا خمیازہ پاکستان آج بھی بھگت رہا ہے۔ سونے پر سہاگہ پاکستان کے وزیرِ خارجہ ظفراللہ خان نے اقوامِ متحدہ میں اسرائیل مخالف دھواں دار تقریر کر ڈالی۔ ردَعمل میں اسرائیل کو کہنا پڑ گیا کہ ہماری بقا کیلئے یہ عربوں کا عاشق ملک پاکستان عربوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے جو عربوں سے زیادہ یہودیوں سے نفرت کرتا ہے۔ پاکستان نے بھی یہ بات عملی طور پر ثابت کرنے کیلئے اسرائیل سے دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
آج تک اسرائیل کی پاکستان کے خلاف ڈائریکٹ مداخلت کا کوئی ریکارڈ نہیں ملتا لیکن اسرائیلیوں کا یہ گلہ بجا ہے کہ پاکستان نے ہر موقع پر اسرائیل کو نقصان پہنچانے کی اپنی سی کوشش کی۔ عربوں کو اسرائیل کے خلاف ملٹری سپورٹ فراہم کرنے کی اطلاعات سامنے آئیں، اسرائیل کی جنگِ آزادی کے موقع پر یہ خبریں بھی آئیں کہ پاکستانی فوج کی پلاٹون اسرائیل سے لڑنے روانہ کردی گئی ہے، اسرائیل کے خلاف پاکستان نے ڈھائی لاکھ رائفلز چیکوسلاویہ سے خریدیں اور تین جہاز اٹلی سے خرید کر مصر کو فراہم کیے گئے، پاکستانی پائلٹوں نے عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلی فضائیہ کا ناک میں دم کیے رکھا اور اسرائیلی جنگی جہاز مار گرائے۔ افغانستان میں بسنے والے یہودیوں کو اپنے نئے ملک اسرائیل میں ہجرت کرنے کیلئے راستہ نہ دیا گیا جس پر انہیں ایران کے راستے جانا پڑا، کراچی میں یہودیوں کی واحد عبادت گاہ کو مسمار کرکے شاپنگ پلازہ بنا دیا گیا اور اسرائیل کے دشمن ممالک کو جوہری ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے اسرائیلی کرکٹ ٹیم کی آئی سی سی میں رکنیت کی پرزور مخالفت کی۔ پاکستان میں زلزلہ کے بعد اسرائیل کے امن پسند شہریوں کی امداد ٹھکرا دی گئی جو صرف اور صرف انسانیت کے ناطے مدد کرنا چاہتے تھے۔
لیکن عربوں نے اسکے بدلے پاکستان کو کیا صلہ دیا؟ اسلام کے نام پر حاصل کی گئی پاک سرزمین کو تیتر بٹیر کی شکارگاہ بنا ڈالا، ظالمانہ اونٹ دوڑ کیلئے پاکستانی کمسن بچوں کی اسمگلنگ شروع کردی، عراقی سفارتخانے کو پاکستان میں تخریب کاری کی غرض سے اسلحہ ڈپو بنا ڈالا، اہلِ کتاب اور دیگر مسالک سے نفرتوں کو پروان چڑھایا، پاکستانی کا پاکستانی کے ہاتھوں قتلِ عام کو فروغ دیا، پاکستان کا کبھی کسی ایشو پر ساتھ نہیں دیا، اسلامی جنگی اصولوں کے عین برعکس اسرائیلی شہریوں کے خلاف کیے جانے والے خودکش حملے پاکستان میں متعارف کروا ڈالے اور پاکستان کی تاریخ کے پہلے خودکش حملے کیلئے اسلام آباد میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ملک مصرکا سفارتخانہ منتخب کیا، بھارت کے شہریوں کو ہندی اخی یعنی انڈین میرا بھائی کہہ کر مخاطب کیا اور اسلامی اخوت سے سرشار پاکستان کے بھولے بھالے محنتی مسلمان جو رزقِ حلال کمانے عرب ممالک کا رخ کرتے ہیں انہیں نیشنلٹی دینا تو دور کی بات مسکین یعنی بھکاری کہا۔
عربوں کی مسلط کردہ 8 بڑی جنگیں لڑنے کے بعد آج اسرائیل مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور عملی طور پر ایک فلاحی ریاست کا منظر پیش کر رہا ہے۔ آج کا اسرائیل علم و ہنر کا گڑھ ہے لیکن پاکستانی عوام کو اسرائیل کی ایکچیومنٹس کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ انکے پاسپورٹ پر یہ ہدایت درج کی جاتی ہے کہ یہ پاسپورٹ ماسوائے اسرائیل تمام ممالک کیلئے کارآمد ہے۔ حالانکہ حکم الہیٰ ہے کہ تمام کی تمام دنیا اللہ کی ہے اور مسلمان کو تو تلقین کی گئی ہے کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔ اس ایشو پر اسرائیل کی بھی کوتاہی سمجھی جاسکتی ہے جسکو عربوں نے اس طرح داخلی و خارجی محاذوں پر الجھا رکھا ہے کہ وہ دنیا میں چوتھے نمبر پر بولی اور سمجھی جانے والی زبان اردو کی افادیت پر توجہ نہ دے سکا۔ جسکا نتیجہ یہی نکلا کہ پاکستان جیسے اہم جیو سٹریٹیجک ملک کے میڈیا کو مڈل ایسٹ کے حالات سے آگاہی کیلئے عرب میڈیا پر ہی بھروسہ کرنا پڑتا ہے جو سوفیصدی اسرائیل مخالف ہے جس نے پاکستان کی رائے عامہ کو اسرائیل دشمن بنا ڈالا ہے۔ آج پاکستان میں کوئی اِسرا ایڈ سمیت دیگر اسرائیلی امدادی اداروں کے بارے میں نہیں جانتا، کسی کو نہیں پتا کہ مڈل ایسٹ کی واحد جمہوری ریاست اور کوئی نہیں بلکہ اسرائیل ہے، کوئی اسرائیلی نوبل انعام یافتہ افراد کے بارے میں آگاہ نہیں۔ آج پاکستان کا بچہ بچہ ہالی وڈ کی تیارکردہ انگریزی موویز کا دیوانہ ہے، پاکستانی فلم انڈسٹری کا نام لالی وڈ بھی ہالی وڈ سے متاثرہو کر رکھا گیا ہے لیکن نہیں جانتا پاکستانی تو وہ ان ذہین اور قابل یہودیوں کو نہیں جانتا جنہوں نے ہالی وڈ کو قائم کیا۔ اسی لاعلمی کا نتیجہ لگتا ہے کہ اسرائیل سے نفرت کا اظہار عرب دنیا سے باہر بھارت، تھائی لینڈ اور بوسنیا میں قائم اسرائیلی سفارتخانوں پر حملے کرکے کیا جا رہا ہے۔
عالمی امن کی خاطر اسرائیل کو عجمی مسلمانوں کو قائل کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان اور دیگر ممالک کی طرز پر یہ یہودی قوم کا بھی حق ہے کہ وہ حضرت اسرائیل کی منتخب کردہ حدود میں اپنے لیے آزاد ریاست قائم کریں بلکہ جی جان سے اسکی حفاظت کریں۔ تاریخ میں فلسطین کا اسلام سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا، یہ نام فلسطین بھی عیسائیوں کا دیا ہوا ہے اور یہ کبھی بھی ایک اکائی نہیں رہا۔ جبکہ یہ مقدس سرزمین ہمیشہ سے یہودیوں کی رہی ہے جہاں سے انہیں زبردستی عیسائیوں نے بے دخل کردیا تھا۔ عجمی مسلمانوں کو سمجھنا چاہیے کہ عرب مسلمان حضرت اسماعیل کی اولاد ہیں اور یہودی حضرت یعقوب کی اولاد جنکا لقب اسرائیل تھا جبکہ دونوں کے دادا جان حضرت ابراہیم ایک ہی ہیں جن پر سلامتی اور انکی اولاد آلِ ابراہیم کی سلامتی جس میں لامحالہ یہودی بھی شامل ہیں، کیلئے ہر مسلمان دن میں پانچ مرتبہ نماز میں درود بھیجتا ہے۔ ایک ہی مذہب، زبان، کلچر کے ہوتے ساتے امتِ مسلمہ کو تقسیم در تقسیم کرنے والے خلافتِ عثمانیہ کے باغی عربوں کی مملکت اسرائیل سے ناحق دشمنی سراسر نسلی منافرت ہے جسے انہوں نے اسلام اور کفر کی جنگ کا رنگ دیکر دیگر عجمی مسلمان ممالک کو بھی اسرائیل کی مخالفت میں جھونک ڈالا ہے۔ اگر اسکی وجہ عجمی مسلمانوں کی اپنی لاعلمی یا پھر عربوں سے عقیدت ہے تو انہیں یہ باور کرنا چاہیے کہ ابو جہل بھی عرب تھا اور کفارِ مکہ بھی عرب تھے جنکی اولاد آج آلِ سعود کے نام سے سرزمینِ حرمینِ شریفین پر پھر سے قابض ہے اور مقدس سرزمین کو اپنی ذاتی جاگیر گردانتے ہوئے “سعودیوں کا عرب” نام دیتی ہے، نعوذ باللہ۔ پیٹرو ڈالر کی بدولت پاکستان جیسے غریب عجمی ملک میں مدرسوں کا ایک ایسا نیٹ ورک قایم و دائم کرتی ہے جسکا مقصد مسلمانوں کو علم و ترقی سے کوسوں دور کرنا اور اپنے ہر شامتِ اعمال کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرا کر اسرائیلی جھنڈے جلاکر اس حکم الہی کو بھی فراموش کرنا ہے کہ تم انکے جھوٹے خداؤں کو بھی برا نہ کہو کہ کہیں وہ جواب میں تمھارے سچے خدا کو برا نہ کہہ دیں۔
یہ امر بھی نہایت غورطلب ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے تمام اسلامی جماعتوں نے پاکستان کی اس نکتے پر مخالفت کی تھی کہ امت مسلمہ کو تقسیم کرنا بہت بڑا گناہ ہے لیکن پاکستان بننے کے بعد انھوں نے حقیقیت کو تسلیم کرلیا اور پاکستان کی ترقی و سربلندی کیلئے سرگرمِ عمل ہو گئے۔ لیکن یہی اصول بنی اسرائیل کیلئے مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا جو اپنی قوم کو اپنی کھوئی ہوئی سرزمین پر متحد کرنے کی خاطر آزاد ریاست حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ برصغیر کی تاریخ میں کبھی کسی یہودی پر ظلم نہیں کیا گیا، مسلمانوں کے عہدِ حکومت میں یہودی ہندوستان میں آزادانہ کاروبار کرتے تھے جبکہ اکبرِ اعظم کے منعقد کردہ مذہبی بحث و مباحثے میں یہودیوں کی شرکت ہوا کرتی تھی۔ دوسری جنگِ عظیم کے موقع پر جب نازی جرمنی کا سفاک حکمران ھٹلر یہودیوں کا قتل عام کر رہا تھا، آج کے پاکستانی خطے سے تعلق رکھنے والے بہادر فوجی برطانوی رائل آرمی کے ماتحت دنیا کو ھٹلر کے ظلم سے نجات دلانے کیلئے نازیوں کے خلاف جنگ میں دادِ شجاعت دے رہے تھے۔
وقت آگیا ہے کہ پاکستان عرب اسپرنگ کی زد میں آنے والے مڈل ایسٹ کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا تقاضا سمجھے، عرب حکمرانوں کی اپنے ہی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کا مشاہدہ کرے اور دقیانوسیت کو خیرباد کہے۔ اسرائیل کے سلسلے میں خود بھی سوچ و بچار کرے اور اپنے دیرینہ دوست چین سے بھی مشورہ کرے جو کبھی پاکستان کو دھوکا نہیں دیتا۔ چین نے بھی شروع شروع میں اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے گریز کیا تھا حالانکہ اسرائیل مڈل ایسٹ کا پہلا ملک تھا جس نے چین کو تسلیم کیا لیکن حقیقت سے کب تک منہ موڑا جا سکتا ہے اور آج دونوں ممالک سفارتی تعلقات قائم ہونے کی 20ویں سالگرہ دھوم دھام سے منا رہے ہیں جبکہ مملکتِ خداداد پاکستان کے امن پسند شہری اپنے بزرگوں کی اسرائیل دشمنی پر مبنی نفرت آلود خارجہ پالیسی کی بدولت نہ صرف اپنے ہی ملک میں غیرمحفوظ ہیں بلکہ ترقی یافتہ فرسٹ ورلڈ ممالک کے دروازے بھی ان پر بند ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی اسرائیل سے ناحق دشمنی آخر کب تک جاری رہے گی اور پاکستان ہم سے بلا کسی وجہ کے کب تک نفرت کرتا رہے گا؟


HATT KA JAWAB

اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بھائیو اور بہنو کل ایک معروف یہودی سکالر ڈاکٹر طوواہرٹمین کا پاکستانیوں کے نام ایک خط دیکھنے کو ملا. خط کا عنوان ہے "پاکستانی ہم سے کب تک بلاوجہ نفرت کرتے رہیں گے"

یہ خط اصل غلیظ یہودی ذہنیت سے بھرپور ہے. اس خط کے زریعے ایک طرف تو مسلمانوں میں آپس میں نفرتیں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور دوسری طرف اسرائیل اور یہودیوں کو معصوم اور مظلوم ثابت کرنے کی کوشش. خط کا مدھا یہ تھا کہ پاکستان کو چاہئیے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر لے اور دوستانہ تعلقات رکھے.

یہ خط پاکستانیوں کو بیوقوف بنانے اور اپنے حق میں رائے تیار کرنے کی ایک کوشش ہے. یہ تحریر تفصیل کی متحمل نہیں لہٰذا پہلے ہم ڈاکٹر طوواہرٹمین کے کلمات نقل کریں گے اور ساتھ ساتھ ان پر مختصر تبصرہ کر تے جائیں گے.


محترمہ فرماتی ہیں کہ


"پاکستان کے بارے میں قائدِاعظم محمد علی جناح کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلمانانِ ہند کیلئے ایک ایسی تجربہ گاہ ہوگا جہاں اسلام کے بتائے ہوئے زریں اصولوں عملی طور پر نافذ کیے جا سکیں۔ مسلمانانِ ہند کی لازوال جدوجہد بالآخر رنگ لے آئی اور مسلمانوں کی ایک نظریاتی آزاد ریاست پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر 14 اگست 1947 پر ابھر آئی۔
ایسی ہی ایک آزاد ریاست کا خواب بنی اسرائیل کے راہنماؤں نے بھی دیکھا۔ ایک ایسی امن پسند ریاست جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے دربدر ظلم و ستم کا شکار یہودیوں کا اپنا گھر کہلا سکے، جہاں دنیا کے ذہین ترین لوگ بلا خوف و خطر اپنی صلاحتیں بنی نوح انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے وقف کر سکیں، نئی نئی ایجادات کی جاسکیں،"

جواب)
کہنے کی حد تک تو یہ میٹھی میٹھی باتیں بہت پیاری ہیں پر حقیقت اس کے برعکس ہے.
اگر "امن پسند ریاست" اسے کہتے ہیں جو لاکھوں فلسطینی مسلمانوں کی لاشوں پر تعمیر کی جائے تو ایسی امن پسند ریاست کو صفہ ہستی سے مٹانا ہم اپنا فرض جانتے ہیں۔ اور ہم آپ کی اس تقسیم یعنی عربی مسلمان، عجمی مسلمان، پاکستانی مسلمان اور افغانی مسلمان کو بھی تسلیم نہی کرتے، آپ نے پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست تو کہا لیکن شاید آپ کو سہی طرح ہمارے نظریات سے واقفیت نہی. ہمارے نظریات بہت واضح ہیں۔ ہم امت مسلمہ کا حصہ ہیں اور دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والا مسلمان چاہے کسی بھی رنگ، کسی بھی نسل کا ہو، جو بھی زبان بولتا ہو وہ ہمارا بھائی ہے۔ اس کی تکلیف ہماری تکلیف ہے، اس کا درد ہمیں محسوس ہوتا ہے۔ یہ امت ایک جسد واحد کی طرح ہے۔ اس لیے آپ کی یہ دلیل کہ چوں کہ آپ نے پاکستانیوں پر کوئی ظلم نہی کیا عربوں پر کیا ہے، اس لیے ہمیں آپ سے پیار محبت کا رشتہ بنانا چاہئیے بالکل بھی کارآمد نہی ہو سکتی۔۔

آپ کے پورے خط کی بنیاد صرف ایک ہے نقطہ ہے کہ یہ جنگ یہودیوں اور عربوں کی ہے اس لے پاکستانیوں کو بیچ میں نہی کودنا چاہئیے۔ اس لیے آپ کے پورے خط کی عمارت کو گرانے کے لیے میرا اتنا جواب ہی کافی ہے۔ لیکن میں کچھ اور باتوں کی وضاحت بھی کرنا چاہوں گا۔


آپ کا پاکستان اور اسرائیل کے قیام کو ایک جیسا کہنا بھی بالکل خرافات ہے. قیام پاکستان کے لیے اس سرزمین پر بسنے والوں کا قتل عام کر کے باہر سے کسی قوم کو لا کر نہی بسایا گیا. پاکستان جہاں قائم ہے وہ مسلمانوں کو اپنی زمین ہے.
اس کے برعکس یہودی ریاست اسرائیل کے قیام کے لیے پوری دنیا سے یہودیوں کو فلسطین منتقل کیا گیا، فلسطین کے اصلی و حقیقی باسیوں کی زمین پر بزور طاقت قبضہ کیا گیا. بات صرف مسلمانوں کے ایک علاقے پرغاصبانہ قبضے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس حصے کو مسلمانوں کی صفوں پر حملے کرنے اور ان کی خواہشات اور آرزؤں کو کچلنے کے لئے محاذ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

No comments:

Post a Comment